اس.سے پہلے کہ ہم کالا باغ ڈیم کے تنازعے پر بات کریں، کچھ بنیادی باتوں کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔ انہی باتوں کو نہ 

سمجھنے کی وجہ سے آج دشمن ہم پر کاری ضربیں لگارہا ہے۔

 1..جھوٹ اور پراپیگنڈہ جدید دور کی جنگوں میں دشمن کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ بڑی بڑی جنگیں صرف پراپیگنڈے کے ہتھیار سے ایک گولی چلائے بغیر جیتی جاسکتی ہیں، اور آج ہمارے خلاف دشمن کا یہ سب سے موثر ہتھیار ہے۔

 


2..پاکستان کے خلاف جو ایک بہت بڑا ہتھیار بھارت اور ہمارے دشمن استعمال کررہے ہیں، وہ پانی ہے۔ صرف ہمارا پانی روک کر وہ پاکستان کواس طرح تباہ کرسکتے ہی کہ جیسے ایٹمی جنگ میں۔ جب پانی رکتا ہے تو پاکستان کی خوراک تباہ ہوتی ہے، بجلی بنانے کی صلاحیت تباہ ہوتی ہے، صنعت و معیشت تباہ ہوتی ہے، ملک میں خانہ جنگی پیدا ہوتی ہے، صوبوں میں باہمی اختلافات اور جھڑپیں شروع ہوتی ہیں اور پھر وہ ہوتا ہے کہ جو یوگو سلاویہ میں ہوا اور آج شام میں ہورہا ہے۔

 

 

 3..ایک قائدہ یاد رکھیں، کہ جس منصوبے کو روکنے کیلئے بھارت اپنی تمام طاقت کو جھونک دے، جس کو اسفندیار ولی اور محمود اچکزئی جیسے غداران وطن روکنے کیلئے دھمکیاں دیں، توسمجھ جائیں کہ وہ منصوبہ پاکستان کی سلامتی اور بقاءکیلئے لازم و ملزوم ہے۔کالا باغ ڈیم سی پیک سے بھی زیادہ پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ اسی لیے اس کی مخالفت بھی سی پیک سے بھی زیادہ ہورہی ہے۔ان تین قائدوں کو بیان کرنے کے بعد اب ہم کالا باغ ڈیم کے تنازعے کی تفصیلات میں آتے ہیں۔
کالا باغ ایک قدرتی پہاڑی سلسلہ ہے کہ جس کے درمیان سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ کالا باغ کے فوراً بعد پاکستان کے میدانی علاقے شروع ہوجاتے ہیں، لہذا قدرتی طور پر کالا باغ ایک بنا بنایا ڈیم ہے، کہ جس کے دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اس مقام پر دریا کے آگے صرف دیوار بنا کر ڈیم بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے قلب میں ہونے کی وجہ سے یہاں تک رسائی بہت آسان ہے، بھاری مشینری، افرادی قوت اور سازو سامان بغیر کسی دقت کے منصوبے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس سے آگے میدانی علاقہ ہونے کی وجہ سے ڈیم سے کئی نہریں نکال کر پورے ملک میں پھیلائی جاسکتی ہیں۔ دریائے سندھ کے آس پاس آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی اس سے سیراب ہوگی، تقریباً تربیلا اور منگلا جتنا پانی اس میں ذخیرہ ہوگا، اگر بجلی پیدا کرنے والے ٹربائنوں کی تعداد بڑھائی جائے تو صرف اس مقام پر 6 ہزار میگاواٹ سے زائد انتہائی سستی پن بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ غازی بروتھا کے طرز پر نہریں نکال کر اور مقامات پر بھی بجلی پیدا کی جائے تو یہ ہزاروں میگاواٹ تک مزید بڑھائی جاسکتی ہے، کہ جس کی قیمت تقریباً 2 روپے فی یونٹ ہوگی۔ صرف زرعی شعبے اور خوراک کی پیداوار میں اس ڈیم سے ہونیوالی آمدنی 100 ارب روپے سال سے زیادہ متوقع ہے۔ بجلی سے ہونیوالی آمدن اور کمائی اس کے علاوہ ہے۔ پانی کی جھیل مچھلیوں کی افزائش اور سیاحت کیلئے موزوں ترین۔
تربیلا اور منگلا ڈیم جو 60 ءکی دہائی میں بنائے گئے تھے اور جن کے اوپر آج تک پورا پاکستان چل رہا ہے، اب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اپنے آغاز سے لیکر آج تک انتہائی کم ہوچکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج نوے فیصد سے زائد ہمارا ذخیرہ کرنے والا پانی ضائع ہو کر سمندر میں جارہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں آنے والے تمام دریاﺅں پر بھارت نے ڈیم بھی بنا لیے ہیں۔ ہولناک آبی قلت اب ایک حقیقت بن کر پاکستان کی پوری سلامتی کیلئے شدید ترین خطرہ بن چکی ہے۔ صرف پاکستان دشمنی، جھوٹ اور پراپیگنڈے اور حکمرانوں کی نا اہلی تھی کہ جس کے باعث پچھلے 40 برس میں منگلا یا تربیلا کی طرز پر کوئی ایک بھی ڈیم نہیں بنایا جاسکا۔
دیامیر بھاشا ڈیم کسی صورت میں بھی کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ ایک تو وہ پاکستان کے شمال میں جس بلندی پر ہے وہاں تک رسائی ہی مشکل ترین امر ہے۔ ڈیم تعمیر کرنے سے پہلے وہاں تک پہنچنے اور بھاری مشینری پہنچانے کیلئے ہی اتنے پہاڑ کاٹنے پڑیں گے کہ یہ امر محال بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ اس کے علاوہ بھاشا ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکالی جاسکتی کیونکہ علاقہ سارا پہاڑی ہے اور کوئی علاقہ یا کھیت اس سے سیراب نہیں کیا جاسکتا۔ بھاشا ڈیم اگر بن بھی جائے تو اس میں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، بجلی بنائی جاسکتی ہے، مگر ایک ایکڑ اراضی بھی کاشت کاری کیلئے میسر نہیں ہوگی۔……………………….
اب ہم ایک ایک کرکے ان تمام اعتراضات کا جواب دینگے کہ جو کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اب تک کیے جاتے رہے ہیں۔
پہلا اعتراض: پاکستان کی دو صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کو مسترد کردیا ہے۔ لہذا اب اس کو کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
دوسرا اعتراض: اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو اس سے نوشہرہ، چارسدہ اور پشاور ڈوب جائے گا۔
تیسرا اعتراض: اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو اس سے سندھ بنجر ہوجائے گا۔
چوتھا اعتراض: ڈیم بنانا ہی کیوں ضروری ہے، کہیں اور کیوں نہیں بنا لیتے؟
آئیے اب ان اعتراضات کو ایک ایک کرکے ادھیڑتے ہیں۔
یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستان کے دو صوبوں نے اس ڈیم کی مخالفت نہیں کی، صرف دو سیاسی جماعتوں نے کی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں سرحد اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں سے اس ڈیم کے خلاف قرارداد پاس کروائی، اور دونوں ہی کی وجوہات جھوٹ، پراپیگنڈے، خرافات اور پاکستان دشمنی پر مبنی تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے مختلف اعتراضات کیے۔ 
عوامی نیشنل پارٹی کا اعتراض یہ تھا کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ پیپلز پارٹی کا اعتراض یہ تھا کہ سندھ بنجر ہوجائے گا۔ دونوں نے ہی نہ کوئی دلائل دیئے، نہ کوئی تکنیکی ثبوت پیش کیے، نہ ہی کوئی دوسرا حل پیش کیا اور نہ ہی پاکستان کو پیش آنے والے اس بحران کے خلاف آواز اٹھائی۔ دونوں ہی کے اعتراضات شرمناک بدنیتی اور پاکستان دشمنی پر مبنی تھے۔ آئیں اب آپ کو بتاتے ہیں کیسے؟پاکستان کی تاریخ میں جتنا تجزیاتی اور تحقیقی کام قومی اور غیر ملکی اداروں نے کالا باغ ڈیم پر کیا ہے وہ کسی اور ڈیم پر نہیں ہوا۔ اربوں روپے کی لاگت سے اس کی تعمیری روپوٹیں تیار کی گئی ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے بہترین دماغ اور سائنسدانوں نے ان پر کام کرکے اپنی رائے دی ہے اور کالا باغ کے مقام کو ایک بڑا ڈیم بنانے کیلئے موزوں ترین قرار دیا ہے۔
اب خود عقل سے کام لیں، کیا پاکستان کے انجینئروں اور سائنسدانوں کا دماغ خراب ہے کہ وہ ایسا ڈیم ڈیزائن کریں گے کہ جو نوشہرہ، چارسدہ اور پشاور کو غرق کردے؟ خان عبدالغفار خان، ولی خان اور اسفندیار ولی ملک و قوم و ملت کے پکے ثابت شدہ غدار اور مشرکوں کے ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے پاکستان بننے کی بھی مخالفت کی، تو کیا ہم پاکستان نہ بناتے؟ انہی کی وجہ سے صوبہ سرحد سے ریفرنڈم کرانا پڑا کہ کیا آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں۔ ان کی بے شرمی اور بے غیرتی اس حد تک تھی کہ یہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے غیور پشتونوں کو ہندوﺅں کا غلام بنانے جارہے تھے۔ آج یہ حرام خور منظور پشتین کی پوری تحریک کی حمایت کررہے ہیں۔ ساری زندگی پشتونستان بنانے کیلئے پاکستان کی پیٹھ میں خنجر مارتے رہے۔ تو جب ان جیسا ناپاک گروہ ایک فحش پراپیگنڈہ کرے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ اور پشاور ڈوب جائے گا تو ذرا ہوش سے کام لیکر غور کریں کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے؟
کالا باغ کے مقام سے دریائی راستے سے اٹک تقریباً 95 میل دور ہے۔ جب دریا کے آگے ڈیم بنایا جاتا ہے تو ڈیم کے پیچھے ایک پانی کی جھیل بننا شروع ہوجاتی ہے۔ اس جھیل کی گہرائی اور پیچھے تک لمبائی کا تعلق ڈیم کے آگے بنائی گئی دیوار کی اونچائی سے ہوتا ہے۔ جتنی اونچی دیوار ہوگی اتنی ہی گہری اور لمبی جھیل پیچھے بنتی جائے گی۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کی جھیلیں بھی کئی کئی کلومیٹر پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح کالا باغ کی جھیل بھی تقریباً 50 میل پیچھے تک جائے گی، جبکہ کالا باغ سے اٹک تک کا فاصلہ 95 میل ہے اور نوشہرہ تو اس سے بھی پیچھے ہے۔ اگر کالا باغ کی جھیل مکمل بھی بھری ہو تب بھی اس کی سطح نوشہرہ سے 60 فٹ نیچے رہے گی۔ تکنیکی طور پر اس جھیل کی وجہ سے نوشہرہ کا ڈوبنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود جاہلوں کی تسلی کیلئے رپورٹوں میں یہ بھی گنجائش رکھی گئی تھی کہ ڈیم کی اونچائی کو مزید کم کردیا جائے کہ جس سے جھیل کی گہرائی اور پیچھے لمبائی مزید کئی میل کم ہوجائے گی۔ اس فحش اور جھوٹے اعتراض کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے پاس اس ڈیم کی مخالفت کرنے کی اور کوئی دوسری دلیل سرے سے ہے ہی نہیں۔
 اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ بھارت افغانستان میں دریائے کابل پر بھی ڈیم بنارہا ہے کہ جس کا مقصد پاکستان میں دریائے کابل کے بہاﺅ کو مکمل طور پر روکنا اور بارشوں کے وقت میں اچانک پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔ نوشہرہ چند برس پہلے ڈوب چکا ہے، اور اس کی وجہ کالا باغ ڈیم نہیں، ولی خان اور اسفندیارولی کے بھائی ہندو مشرکوں کی وہ شرارت تھی کہ جو انہوں نے دریائے کابل پر افغانستان کے راستے کی، مگر آپ ان حرام خوروں کو کبھی اپنے ہندو بھائیوں کے خلاف بولتے نہیں سنیں گے۔……………………….
اب آئیں پیپلز پارٹی کے اعتراض کی جانب۔ ولی خان گروہ تو کھلم کھلا پاکستان دشمنی میں اس ڈیم کی مخالفت کررہا ہے، مگر پیپلز پارٹی کے اس ڈیم کے مخالفت کرنے کی وجہ اس قدر شرمناک ہے کہ انسان کو ابکائی آجائے۔آئیں آپ کو تفصیل بتاتے ہیں۔پیپلز پارٹی نے سندھ کے ان پڑھ اور سادہ عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو پنجاب سندھ کا سارا پانی لے جائے گا اور سندھ بنجر ہوجائے گا، اور اس سے سمندر کا پانی سندھ میں چڑھ آئے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اس شرمناک پراپیگنڈے کا نہ کوئی ثبوت دیا، ن